میرا مقصود نظر لوح مقدر میں نہیں
میرا مقصود نظر لوح مقدر میں نہیں
میں وہ موتی ڈھونڈھتا ہوں جو سمندر میں نہیں
بات کرنے کی بھی اب فرصت نہیں شاید اسے
میں نے جب آواز دی کہلا دیا گھر میں نہیں
کس طرح سے دھوئیے چہرے سے گرد ماہ و سال
اتنے آنسو بھی تو اپنے دیدۂ تر میں نہیں
جگمگا سکتی ہو جس سے خامشی کی ریگ دل
اتنی آب و تاب آوازوں کے خنجر میں نہیں
واہموں کے بھوت غم کے سائے سناٹے کے ناگ
کون سا آسیب اے طاہرؔ مرے گھر میں نہیں