کوئی تو سوغات اس کے شہر کی گھر لے چلو
کوئی تو سوغات اس کے شہر کی گھر لے چلو
کچھ نہیں تو جسم پر زخموں کی چادر لے چلو
پیار کے بوسیدہ پھولوں کی یہاں قیمت نہیں
شیش محلوں سے گزرنا ہے تو پتھر لے چلو
ہوں گے ارباب تماشا میں کچھ اہل درد بھی
چند آنسو بھی تبسم میں چھپا کر لے چلو
رات جب بھیگی تو سائے نے مجھے آواز دی
میں ہی تنہائی کا ساتھی ہوں مجھے گھر لے چلو
جانے کیسے کیسے صحراؤں میں ہو اپنا گزر
دوستو آنکھوں میں اشکوں کا سمندر لے چلو
داد خواہی کو یہ تنہا زخم سر کافی نہیں
منصفوں کے پاس پتھر بھی اٹھا کر لے چلو
دیر سے صبحیں کھڑی ہیں در پہ آئینہ بدست
زندگی کو اب ذرا خوابوں سے باہر لے چلو
مجرم حق شہر میں میرے سوا کوئی نہیں
سنگ اندازوں کی بستی میں مرا سر لے چلو
رات اس کے لمس کی خوشبو نے چپکے سے کہا
یا یہیں رہ جاؤ تم بھی یا مجھے گھر لے چلو
طاہرؔ اپنے سر کسی کا یہ بھی کیوں احساں رہے
اپنی گردن کے لیے خود اپنا خنجر لے چلو