جو ہم کہیں وہی طرز بیان رکھتا ہے
جو ہم کہیں وہی طرز بیان رکھتا ہے
وہ اپنے منہ میں ہماری زبان رکھتا ہے
رسائی تا بہ سر لا مکان رکھتا ہے
پرند فکر غضب کی اڑان رکھتا ہے
سنا ہے پاؤں تلے آسمان رکھتا ہے
فقیر شہر بڑی آن بان رکھتا ہے
وہ جس کو سایۂ دیوار تک نصیب نہیں
نہ جانے ذہن میں کتنے مکان رکھتا ہے
بہت بلیغ ہے انداز گفتگو اس کا
ہر ایک لفظ میں اک داستان رکھتا ہے
کوئی نہ دیکھ سکے اس کے گھر کی حالت زار
وہ شاید اس لیے اونچا مکان رکھتا ہے
وہ سب سے ملتا ہے ہنس کر بڑے خلوص کے ساتھ
انا کی تیغ مگر درمیان رکھتا ہے
ہمارے شہر کی آغوش وا ہے سب کے لیے
بڑی کشادہ دلی میزبان رکھتا ہے
ہمیں تو گاؤں کی آسودگی نے لوٹ لیا
جہاں فقیر بھی اپنا مکان رکھتا ہے
اسی کے سر پہ کوئی سائباں نہیں طاہرؔ
جو خود کو سب کے لیے سائبان رکھتا ہے