باڑھ آئی گاؤں کو دریا بہا کر لے گیا
باڑھ آئی گاؤں کو دریا بہا کر لے گیا
ایک پیاسا دوسرے پیاسے کو آ کر لے گیا
روح میں صدیوں کا سناٹا بسا کر لے گیا
میں جو ارض شہر سے صحرا اٹھا کر لے گیا
ذہن کی الماریوں میں دھول سی اڑنے لگی
کوئی الفاظ و معانی سب چرا کر لے گیا
رہ گیا قائم پھر اس کی پاک بازی کا بھرم
پھر وہ اک شیطان سے خود کو بچا کر لے گیا
پہلے کی مانند لطف آبلہ پائی نہیں
کون میری راہ کے کانٹے اٹھا کر لے گیا
کوڑیوں کے مول طاہرؔ بک گئی جنس ہنر
مال مفلس ہر کوئی قیمت گھٹا کر لے گیا