طاہر تلہری کے تمام مواد

14 غزل (Ghazal)

    سورج کی طرح اپنے ہی محور میں قید ہوں

    سورج کی طرح اپنے ہی محور میں قید ہوں صدیوں سے روشنی کے سمندر میں قید ہوں سر سے گزرتی جاتی ہیں لمحوں کی آندھیاں میں ہوں کہ ماہ و سال کے چکر میں قید ہوں کیا کیا نہ سوچتا ہوں میں فردا کے باب میں حالانکہ جانتا ہوں مقدر میں قید ہوں چاہوں تو کائنات کے خرمن کو پھونک دوں تم کیا سمجھ رہے ...

    مزید پڑھیے

    باڑھ آئی گاؤں کو دریا بہا کر لے گیا

    باڑھ آئی گاؤں کو دریا بہا کر لے گیا ایک پیاسا دوسرے پیاسے کو آ کر لے گیا روح میں صدیوں کا سناٹا بسا کر لے گیا میں جو ارض شہر سے صحرا اٹھا کر لے گیا ذہن کی الماریوں میں دھول سی اڑنے لگی کوئی الفاظ و معانی سب چرا کر لے گیا رہ گیا قائم پھر اس کی پاک بازی کا بھرم پھر وہ اک شیطان سے ...

    مزید پڑھیے

    حیات و موت کی الجھن میں ڈالتا کیوں ہے

    حیات و موت کی الجھن میں ڈالتا کیوں ہے یہ تہمتیں مرے اوپر اچھالتا کیوں ہے اب آ گیا ہوں تو خطرے میں ڈالتا کیوں ہے اندھیری رات میں گھر سے نکالتا کیوں ہے ابھی معاملۂ کائنات طے کر دے ذرا سی بات قیامت پہ ٹالتا کیوں ہے کسی طرح بھی تو انساں ترا حریف نہیں پھر اس غریب کو تو مار ڈالتا ...

    مزید پڑھیے

    جو ہم کہیں وہی طرز بیان رکھتا ہے

    جو ہم کہیں وہی طرز بیان رکھتا ہے وہ اپنے منہ میں ہماری زبان رکھتا ہے رسائی تا بہ سر لا مکان رکھتا ہے پرند فکر غضب کی اڑان رکھتا ہے سنا ہے پاؤں تلے آسمان رکھتا ہے فقیر شہر بڑی آن بان رکھتا ہے وہ جس کو سایۂ دیوار تک نصیب نہیں نہ جانے ذہن میں کتنے مکان رکھتا ہے بہت بلیغ ہے انداز ...

    مزید پڑھیے

    تنہائی مل سکی نہ گھڑی بھر کسی کے ساتھ

    تنہائی مل سکی نہ گھڑی بھر کسی کے ساتھ سایہ بھی میرے ساتھ رہا روشنی کے ساتھ روشن ہوا نہ کوئی دریچہ مرے بغیر اک ربط خاص رکھتا ہوں میں اس گلی کے ساتھ دو دن کی زندگی میں بھی دھڑکا تھا حشر کا کرتے رہے گناہ مگر بے دلی کے ساتھ میں بے عمل تھا فرد عمل کیسے بن گئی کیسا مذاق ہے یہ مری بے ...

    مزید پڑھیے

تمام