طاہر تلہری کی غزل

    کوئی دیکھے تو یہ انداز ستانے والا

    کوئی دیکھے تو یہ انداز ستانے والا مجھ سے غافل ہے مرے خواب میں آنے والا بعض اوقات یہ دیکھا ہے تری گلیوں میں راستہ بھول گیا راہ بتانے والا درس عبرت مرا انجام ہے دنیا کے لیے اب تری باتوں میں کوئی نہیں آنے والا گمرہی کا مجھے احساس دلا دیتا ہے بعض اوقات کوئی ٹھوکریں کھانے ...

    مزید پڑھیے

    ہوتا ہر قید سے آزاد تو اچھا ہوتا

    ہوتا ہر قید سے آزاد تو اچھا ہوتا کاش میں پیڑ سے ٹوٹا ہوا پتا ہوتا وہ ہے بس ایک سراب اس کا تعاقب نہ کرو ابر ہوتا تو کہیں ٹوٹ کے برسا ہوتا چاند بن کر ہے تو محتاج ضیائے خورشید شمع بنتا تو کسی گھر کا اجالا ہوتا چھین لیں مجھ سے اجالوں نے تری یادیں بھی اس سے بہتر تھا کہ دنیا میں ...

    مزید پڑھیے

    تیرے باعث مسئلہ حل ہو گیا

    تیرے باعث مسئلہ حل ہو گیا میں ادھورا تھا مکمل ہو گیا جان دی اس نے میں پاگل ہو گیا اور افسانہ مکمل ہو گیا مجھ کو لے کر ریل آگے بڑھ گئی اور گیلا اس کا آنچل ہو گیا یہ سمندر کس قدر تھا پر سکوں چاند کو دیکھا تو پاگل ہو گیا اب مری اچھائیاں بھی عیب ہیں اب مرا سونا بھی پیتل ہو گیا ہر ...

    مزید پڑھیے

    خلش زخم تمنا کا مداوا بھی نہ تھا

    خلش زخم تمنا کا مداوا بھی نہ تھا میں نے وہ چاہا جو تقدیر میں لکھا بھی نہ تھا اتنا یاد آئے گا اک روز یہ سوچا بھی نہ تھا ہائے وہ شخص کہ جس سے کوئی رشتہ بھی نہ تھا کیوں اسے دیکھ کے بڑھتی تھی مری تشنہ لبی ابر پارہ بھی نہ تھا وہ کوئی دریا بھی نہ تھا دل وہ صحرا کہ جہاں اڑتی تھی حالات کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2