سورج کی طرح اپنے ہی محور میں قید ہوں

سورج کی طرح اپنے ہی محور میں قید ہوں
صدیوں سے روشنی کے سمندر میں قید ہوں


سر سے گزرتی جاتی ہیں لمحوں کی آندھیاں
میں ہوں کہ ماہ و سال کے چکر میں قید ہوں


کیا کیا نہ سوچتا ہوں میں فردا کے باب میں
حالانکہ جانتا ہوں مقدر میں قید ہوں


چاہوں تو کائنات کے خرمن کو پھونک دوں
تم کیا سمجھ رہے ہو کہ پتھر میں قید ہوں


شاید مرا وجود تھا اک حصۂ زمیں
میں خاک ہو کے بھی اسی چکر میں قید ہوں


طاہرؔ میں اک جزیرے کی مانند آج بھی
تشنہ دہن ہوں گو کہ سمندر میں قید ہوں