حیات و موت کی الجھن میں ڈالتا کیوں ہے
حیات و موت کی الجھن میں ڈالتا کیوں ہے
یہ تہمتیں مرے اوپر اچھالتا کیوں ہے
اب آ گیا ہوں تو خطرے میں ڈالتا کیوں ہے
اندھیری رات میں گھر سے نکالتا کیوں ہے
ابھی معاملۂ کائنات طے کر دے
ذرا سی بات قیامت پہ ٹالتا کیوں ہے
کسی طرح بھی تو انساں ترا حریف نہیں
پھر اس غریب کو تو مار ڈالتا کیوں ہے
ندیم تیرا تو اس میں کوئی مفاد نہیں
میں گر رہا ہوں تو مجھ کو سنبھالتا کیوں ہے
مجھے بچا نہ سکے گا تو غرق ہونے سے
فضول خود کو ہلاکت میں ڈالتا کیوں ہے
کسی طرح تو یہ احساس کا عذاب مٹے
تو میرے سینے سے خنجر نکالتا کیوں ہے
تو اپنی فکر کو کچھ بھی سمجھ مگر طاہرؔ
کسی کے شعر میں کیڑے نکالتا کیوں ہے