تبسم اعظمی کی غزل

    ذہن و دل میں خوف کے جب سرسراتے سانپ ہیں

    ذہن و دل میں خوف کے جب سرسراتے سانپ ہیں سیدھے خط بھی لگتے جیسے آڑے ترچھے سانپ ہیں کوئی حیلہ کوئی موقع کچھ بہانہ چاہیے زہر اگلنے کے لیے تیار بیٹھے سانپ ہیں کب کہاں کس موڑ پر ڈس جائیں کس کو ہے خبر آگے کتنے سانپ ہیں اور پیچھے کتنے سانپ ہیں آدمی میں چھپ کے بیٹھا نفس کا جو ناگ ہے اس ...

    مزید پڑھیے

    فرق تجھ سے ہے اک ذرا مجھ میں

    فرق تجھ سے ہے اک ذرا مجھ میں سنگ تجھ میں ہے آئنہ مجھ میں بے بسی کی فقط کتاب نہیں عزم محکم بھی ہے لکھا مجھ میں فہم و دانش کا نور ہوں یکسر فکر کا جلتا ہے دیا مجھ میں مہر و ایثار کا سمندر ہوں اور دریا ہے پیار کا مجھ میں مجھ میں جھرنا ہے نرم خوئی کا ساتھ لاوا بھی ہے چھپا مجھ ...

    مزید پڑھیے

    رکھا سنجو کے گوہر نایاب کی طرح

    رکھا سنجو کے گوہر نایاب کی طرح سونپی تھی جو بزرگوں نے آداب کی طرح اٹھتے ہی ان کے حرف بھی سارے بکھر گئے جن کا وجود گھر میں تھا اعراب کی طرح کچھ کھردرے سے دھاگے بھی چادر میں اس کی ہیں کب زندگی ہے ریشم و کمخواب کی طرح دکھ ہی نہیں ہیں زہر ہلاہل فقط یہاں سکھ بھی ملا ہے بارہا زہراب کی ...

    مزید پڑھیے

    پھولوں کی مثالیں ہیں کانٹوں کا حوالہ ہے

    پھولوں کی مثالیں ہیں کانٹوں کا حوالہ ہے جیون کی ہتھیلی پر رشتوں کا قبالہ ہے اک حبس کا عالم ہے گلشن ہو کہ صحرا ہو بیکل ہیں پرندے بھی بے چین غزالہ ہے انصاف پہ ساقی کے حرف آئے نہ کیوں آخر کم ظرف کے ہاتھوں میں لبریز پیالہ ہے ٹوٹے گی خموشی جب ایوان ہلا دے گی جن ہونٹوں کی سرحد پر ...

    مزید پڑھیے

    یہ بھی نہیں کہ ہم نے بھروسا کیا نہ ہو

    یہ بھی نہیں کہ ہم نے بھروسا کیا نہ ہو یہ بھی نہیں کہ آنکھ سے پردہ ہٹا نہ ہو یہ بھی نہیں کہ آپ سمجھ پائیں دل کی بات یہ بھی نہیں کہ آپ کو کچھ بھی پتا نہ ہو یہ بھی نہیں کہ سب پہ زمانہ ہو مہرباں یہ بھی نہیں کسی سے زمانہ خفا نہ ہو یہ بھی نہیں کہ آنکھ ہے در پر لگی ہوئی یہ بھی نہیں کہ دل کو ...

    مزید پڑھیے

    چہرے پہ کسی کرب کی تنویر نہیں کی

    چہرے پہ کسی کرب کی تنویر نہیں کی محسوس ہی کرتے رہے تفسیر نہیں کی قدموں کو حقیقت کی زمیں پر ہی دھرا ہے خوش فہمی کی جنت کبھی تعمیر نہیں کی واعظ کے کبھی نقش قدم پر نہ چلے ہم خود کر کے دکھایا کبھی تقریر نہیں کی معصوم چراغوں کو ہواؤں نے بجھایا کیوں بھڑکے ہوئے شعلوں پہ تعذیر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    باتوں باتوں میں بڑے ہی پیار سے چھڑکا نمک

    باتوں باتوں میں بڑے ہی پیار سے چھڑکا نمک زخم دشمن کی عطا احباب کا تحفہ نمک موسم غم میں سدا ہوتا رہا پیدا نمک جزر و مد دل میں اٹھے اور آنکھ سے برسا نمک ضبط جب بھی ٹوٹنے کی حد تلک بڑھنے لگا حلق میں گولے کی صورت بارہا اٹکا نمک بھول بیٹھے ہیں نمک کا پاس رکھنا لوگ اب جس طرف بھی ...

    مزید پڑھیے

    دیوار وقت پر ہیں نوشتے عجیب سے

    دیوار وقت پر ہیں نوشتے عجیب سے رقصاں گلی گلی میں ہیں سائے مہیب سے حیرت ہے کیوں جو آئینہ ٹوٹا حبیب سے ٹھوکر ہمیشہ لگتی ہے بالکل قریب سے نکبت کا درد ترسی نظر دل میں اضطراب غربت کا کرب پوچھیے جا کر غریب سے گھر کے مکین خیر سے لوٹیں نہ جب تلک خدشات گھیرے رہتے ہیں دل کو عجیب سے مخلص ...

    مزید پڑھیے

    پردے میں خامشی کے سخن بولنے لگے

    پردے میں خامشی کے سخن بولنے لگے کاٹی گئی زباں تو نین بولنے لگے قاتل تو مطمئن تھا ٹھکانے لگا کے لاش کافور چیخ اٹھے کفن بولنے لگے اہل چمن نے کھو دی بصیرت تو یوں ہوا گلشن کے سارے زاغ و زغن بولنے لگے یوں بھی ہوا ہے لاکھ مکھوٹوں کے باوجود سب آؤ تاؤ چال چلن بولنے لگے جب تان لی ہے رات ...

    مزید پڑھیے