تبسم اعظمی کی نظم

    تماشا

    حویلی کے بڑے دروازے پر آویزاں دونوں کیمرے ہر روز باہر کے مناظر دیکھتے رہتے ہیں حیرت سے مگر اندر کی دنیا بھی ہے کچھ باہر کے جیسی ہی یہاں کے بسنے والوں میں روابط بھی ہیں مستحکم عداوت بھی مسلسل ہے مکیں بالائی منزل کا ہمیشہ دوسری منزل کے باشندے پہ پہرہ تنگ رکھتا ہے کسی بھی طور من ...

    مزید پڑھیے

    فن

    وہ شاخ مضبوط ہو یا نازک یہ منحصر ہے کمال فن پر کہ کیسے تنکوں کو جوڑنا ہے مہین ریشوں کے تانے بانے سے کیسے دیوار جوڑنی ہے کہاں بنانا ہے در کہاں پر جگہ دریچے کی چھوڑنی ہے جہاں سے باد صبا تو آئے درون خانہ چلے جو آندھی گرانے پائے نہ آشیانہ خلوص و انس و وفا کی روئی یقین و ایثار کے ...

    مزید پڑھیے

    شخصیت

    بٹھا کے کاندھے پہ لائی تھی رات اسے شفق نے ہنس کے کیا تھا استقبال ہوا نے راگنی چھیڑی فضا میں گیت گھلے سجا کے پتوں کی تھالی میں اوس کے جگنو اتاری تھی پیڑوں نے آرتی اس کی مگر بلندی پہ آ کر بدل گئے تیور شکن غرور کی پیشانی پر جھلکنے لگی نگاہ قہر و حقارت سے دیکھتی سب کو مزاج گرم ہوا اور ...

    مزید پڑھیے

    ہموار

    نقش مٹتا ہے تو مٹ جائے قدم ہیں ثابت موج سرکش ہے اگر ہم بھی بہت ضدی ہیں روز اک نقش نیا ثبت کریں گے یوں ہی پر اگر کٹ بھی گئے حوصلہ شہ پر ہوگا جاری تخئیل کی پرواز رہے گی یوں ہی ہم نہیں دریاؤں کے انجام سے ڈرنے والے راستہ کر کے سمندر کو گزر جائیں گے

    مزید پڑھیے

    شام کا بھولا

    بھول بھلیا گلیاں ساری دور تلک ہے گھنا اندھیرا شفق دھندلکا دیپک سب ہی سو گئے اوڑھ کے کالی چادر آس کی گٹھری کو پلکوں نے نینوں سے باہر پھینک دیا ہے سوکھی جھیل میں کوئی بھی عکس اترنا نا ممکن ہے لاکھ جتن وہ کر لے لیکن شام کے بھولے راہی کو ہر دروازہ بند ملے گا

    مزید پڑھیے