ذہن و دل میں خوف کے جب سرسراتے سانپ ہیں
ذہن و دل میں خوف کے جب سرسراتے سانپ ہیں
سیدھے خط بھی لگتے جیسے آڑے ترچھے سانپ ہیں
کوئی حیلہ کوئی موقع کچھ بہانہ چاہیے
زہر اگلنے کے لیے تیار بیٹھے سانپ ہیں
کب کہاں کس موڑ پر ڈس جائیں کس کو ہے خبر
آگے کتنے سانپ ہیں اور پیچھے کتنے سانپ ہیں
آدمی میں چھپ کے بیٹھا نفس کا جو ناگ ہے
اس کے آگے ہیچ سب موذی وشیلے سانپ ہیں
اس کا اچھا ہونا بھی اس کے لیے ہے اک عذاب
پیڑ سے صندل کے دیکھیں کتنے لپٹے سانپ ہیں
ہم نے بھی خود کو تبسمؔ اب زمرد کر لیا
سن رہے ہیں ہر طرف ہی بھیس بدلے سانپ ہیں