پردے میں خامشی کے سخن بولنے لگے
پردے میں خامشی کے سخن بولنے لگے
کاٹی گئی زباں تو نین بولنے لگے
قاتل تو مطمئن تھا ٹھکانے لگا کے لاش
کافور چیخ اٹھے کفن بولنے لگے
اہل چمن نے کھو دی بصیرت تو یوں ہوا
گلشن کے سارے زاغ و زغن بولنے لگے
یوں بھی ہوا ہے لاکھ مکھوٹوں کے باوجود
سب آؤ تاؤ چال چلن بولنے لگے
جب تان لی ہے رات نے خاموشی کی ردا
جگنو ستارے چاند گگن بولنے لگے
بزم تصورات میں ماضی کا رقص تھا
یادوں کے گھنگھرو چھنا چھن بولنے لگے
اشعار میں یوں ڈھالیے تصویر کائنات
جادو بیاں قلم رہے فن بولنے لگے