رکھا سنجو کے گوہر نایاب کی طرح

رکھا سنجو کے گوہر نایاب کی طرح
سونپی تھی جو بزرگوں نے آداب کی طرح


اٹھتے ہی ان کے حرف بھی سارے بکھر گئے
جن کا وجود گھر میں تھا اعراب کی طرح


کچھ کھردرے سے دھاگے بھی چادر میں اس کی ہیں
کب زندگی ہے ریشم و کمخواب کی طرح


دکھ ہی نہیں ہیں زہر ہلاہل فقط یہاں
سکھ بھی ملا ہے بارہا زہراب کی طرح


اکثر ہوا ہے ایسا کہ چھوٹی سی موج بھی
سب کچھ بہا کے لے گئی سیلاب کی طرح