چہرے پہ کسی کرب کی تنویر نہیں کی

چہرے پہ کسی کرب کی تنویر نہیں کی
محسوس ہی کرتے رہے تفسیر نہیں کی


قدموں کو حقیقت کی زمیں پر ہی دھرا ہے
خوش فہمی کی جنت کبھی تعمیر نہیں کی


واعظ کے کبھی نقش قدم پر نہ چلے ہم
خود کر کے دکھایا کبھی تقریر نہیں کی


معصوم چراغوں کو ہواؤں نے بجھایا
کیوں بھڑکے ہوئے شعلوں پہ تعذیر نہیں کی


اس کی ہی کہی بات کو دنیا نے نوازا
جس نے کبھی اظہار میں تاخیر نہیں کی


کس طرح زمانے کو خبر ہو گئی اس کی
وہ بات جو اشعار میں تحریر نہیں کی


کچھ خواب جو معراج تھے ہستی کے تبسمؔ
ان خوابوں کی میلی کبھی تعبیر نہیں کی