دیوار وقت پر ہیں نوشتے عجیب سے

دیوار وقت پر ہیں نوشتے عجیب سے
رقصاں گلی گلی میں ہیں سائے مہیب سے


حیرت ہے کیوں جو آئینہ ٹوٹا حبیب سے
ٹھوکر ہمیشہ لگتی ہے بالکل قریب سے


نکبت کا درد ترسی نظر دل میں اضطراب
غربت کا کرب پوچھیے جا کر غریب سے


گھر کے مکین خیر سے لوٹیں نہ جب تلک
خدشات گھیرے رہتے ہیں دل کو عجیب سے


مخلص بھی ہوں شفیق بھی قدر ان کی کیجیے
ملتے ہیں ایسے دوست تبسمؔ نصیب سے