کیوں غلط رہ سے بچایا نہ گیا

کیوں غلط رہ سے بچایا نہ گیا
جانے کیوں موڑ کے لایا نہ گیا


ماننے والا مری باتوں کو
جانے کیوں مجھ سے منایا نہ گیا


سر پھری تیز ہوا کے ہوتے
دیپ الفت کا بجھایا نہ گیا


روح پر ثبت ہوا وہ ایسا
پھر کبھی مجھ سے مٹایا نہ گیا


کٹ گیا پیڑ تو آنگن کا مگر
میرے سر سے کبھی سایہ نہ گیا


جب بھی جاذبؔ وہ ہوا ہم آواز
گیت مجھ سے کوئی گایا نہ گیا