خدا کا شکر ہے کوئی بچھڑ کر لوٹ آیا ہے

خدا کا شکر ہے کوئی بچھڑ کر لوٹ آیا ہے
زمانے بھر کے افسانے بھی اپنے ساتھ لایا ہے


تعارف ہو تو میں تم کو بتاؤں اس کے بارے میں
کہ جس کی یاد نے مجھ کو ستایا ہے رلایا ہے


سنا تو ہے کہ میرا نام سن کر وہ بت کافر
ذرا سا گنگنایا ہے بہت سا مسکرایا ہے


محبت مختلف انداز سے کرتا رہا ہے وہ
کبھی اس نے گرایا ہے کبھی اس نے اٹھایا ہے


کسی کو اپنی ناکامی کا کیسے دوش دوں جاذبؔ
مری آوارگی نے ہی مجھے یہ دن دکھایا ہے