تو نہیں جب سے ہم سفر میرا
تو نہیں جب سے ہم سفر میرا
رہ گزر ہے نہ ہے شجر میرا
کون دے گا یہاں مجھے دستار
ہر بشر چاہتا ہے سر میرا
تیرے جانے سے کچھ نہیں ہوتا
مجھ پہ ہونے لگا اثر میرا
ہر کوئی تھا سراب میں کھویا
دیکھتا کون پھر ہنر میرا
اجنبی شہر اجنبی گلیاں
کوئی دیوار ہے نہ در میرا
میں بھی جاذبؔ عجب مسافر ہوں
ساتھ چلتا ہے میرے گھر میرا