Suhaib Farooqui

صہیب فاروقی

صہیب فاروقی کی غزل

    ہم کو ایسا گمان ہونے لگا

    ہم کو ایسا گمان ہونے لگا وقت کچھ مہربان ہونے لگا دل میں کس کا خیال آیا ہے خوشبو خوشبو مکان ہونے لگا اس نے زلفیں بکھیر دیں اپنی بادلوں کا گمان ہونے لگا پھر کبوتر اڑائے ہیں اس نے پھر لو امن و امان ہونے لگا ان کی نظریں بدل گئیں شاید وقت نامہربان ہونے لگا پھر وہ روٹھا ہے چاند سا ...

    مزید پڑھیے

    وہ طلوع منظر پر اثر تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو

    وہ طلوع منظر پر اثر تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو وہ وداع شب وہ نئی سحر تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو کبھی چاند تاروں میں ڈھونڈھنا کبھی ماہ پاروں میں دیکھنا وہ تلاش جلوۂ معتبر تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو تھیں سخن سخن تری رفعتیں وہ غزل غزل تری نکہتیں تھا تو شعر شعر میں جلوہ گر تجھے یاد ہو کہ نہ ...

    مزید پڑھیے

    کبھی طوفان کے ڈر سے قدم موڑے نہیں جاتے

    کبھی طوفان کے ڈر سے قدم موڑے نہیں جاتے کسی صورت اصول زندگی توڑے نہیں جاتے کسی سے آس کیا رکھنا مداوا کیوں کرے کوئی جو ہم خود آپ اٹکاتے ہیں وہ روڑے نہیں جاتے کوئی چاقو کوئی خنجر یا پھر تلوار لے کر آ کہ ہم سے خون کے رشتے یوں ہی توڑے نہیں جاتے ارے ناداں ذرا تھم جا گھڑی بھر سوچ لے رک ...

    مزید پڑھیے

    دلوں کے راز سپرد ہوا نہیں کرتے

    دلوں کے راز سپرد ہوا نہیں کرتے ہم اہل دل ہیں تماشا بپا نہیں کرتے کبھی گلوں کی وہ خواہش کیا نہیں کرتے جنہیں عزیز ہیں کانٹے گلہ نہیں کرتے ہمارے نام سے زندہ ہے سنت فرہاد ہم اپنے چاک گریباں سیا نہیں کرتے دلوں میں آئے کہاں سے یقین کی تاثیر دعا تو کرتے ہیں دل سے دعا نہیں کرتے یہ عشق ...

    مزید پڑھیے

    تو اگر بے وفا نہیں ہوتی

    تو اگر بے وفا نہیں ہوتی یہ قیامت بپا نہیں ہوتی موت اس کو شکست دیتی ہے زندگی بے وفا نہیں ہوتی کاش میں بھی نہ روٹھتا اس سے کاش وہ بھی خفا نہیں ہوتی میں اگر سچ کو جھوٹ کہہ دیتا مجھ کو ہرگز سزا نہیں ہوتی اس کی زلفوں کی یاد آتی ہے جب فلک پر گھٹا نہیں ہوتی وحشتیں اور بڑھتی جاتی ...

    مزید پڑھیے

    آئنہ ہو کے آئنہ نہ ہوا

    آئنہ ہو کے آئنہ نہ ہوا اس کا وعدہ کبھی وفا نہ ہوا اک ستم بھی کرم نما نہ ہوا زخم کھا کر بھی کچھ بھلا نہ ہوا اس کو اپنا بنانا چاہا تھا ہم سے اظہار مدعا نہ ہوا بات کرتے تو بات بن جاتی بات کرنے کا حوصلہ نہ ہوا اس نے زلفوں سے ڈھک لیا چہرہ چاند سے کوئی رابطہ نہ ہوا ہر نظر میں ہے وصل کی ...

    مزید پڑھیے

    کسی سے پیار کر لے یا کسی سے پیار ہو جائے

    کسی سے پیار کر لے یا کسی سے پیار ہو جائے یہی آزار ہے تو پھر مجھے آزار ہو جائے رسیلے ہونٹ گدرایا بدن اور چشم خوابیدہ کوئی دیکھے اسے تو بے پیے سرشار ہو جائے یہی آزادیٔ اظہار کا مطلب ہے کیا لوگو زباں ترشول ہو جائے قلم تلوار ہو جائے یہی رسم محبت ہے اسی میں لطف آتا ہے کبھی انکار ہو ...

    مزید پڑھیے

    ابر سیاہ قوس قزح چاندنی غزل

    ابر سیاہ قوس قزح چاندنی غزل ہر منظر حیات میں ڈھلتی رہی غزل شانوں پہ اس نے ڈال دی اک سرمئی غزل جیسے فلک سے آئے کوئی جھومتی غزل اوڑھی کبھی تو ہم نے بچھائی کبھی غزل لیکن ہمارے کام نہ آئی کوئی غزل جب بھی تصورات نے آواز دی تجھے تحریر دل پہ ہو گئی اک چاند سی غزل ہر شے حضور حسن میں ...

    مزید پڑھیے

    دل میں ہو جو بھی بہر خدا کہہ لیا کرو

    دل میں ہو جو بھی بہر خدا کہہ لیا کرو اچھا نہیں کہو تو برا کہہ لیا کرو خون جگر کو رنگ حنا کہہ لیا کرو ان کے ستم کو ان کی ادا کہہ لیا کرو تہذیب غم یہ کہتی ہے خاموش لب رہیں آنکھوں سے اپنی شکوہ گلہ کہہ لیا کرو ممکن نہیں ہے دوست غم عشق سے نجات اب درد کو ہی دل کی دوا کہہ لیا کرو یہ بھی ...

    مزید پڑھیے

    ہوس کی حکم رانی ہو رہی ہے

    ہوس کی حکم رانی ہو رہی ہے محبت پانی پانی ہو رہی ہے بسر یوں زندگانی ہو رہی ہے کہ جیسے لن ترانی ہو رہی ہے سخنور ہو زباں اپنی سنبھالو سخن میں بد زبانی ہو رہی ہے پرایا ہے وہ اب میرا نہیں ہے کسی کو خوش گمانی ہو رہی ہے بلا کر مجھ کو محفل سے نکالا یہ کیسی میزبانی ہو رہی ہے بسا رکھی ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3