ہوس کی حکم رانی ہو رہی ہے
ہوس کی حکم رانی ہو رہی ہے
محبت پانی پانی ہو رہی ہے
بسر یوں زندگانی ہو رہی ہے
کہ جیسے لن ترانی ہو رہی ہے
سخنور ہو زباں اپنی سنبھالو
سخن میں بد زبانی ہو رہی ہے
پرایا ہے وہ اب میرا نہیں ہے
کسی کو خوش گمانی ہو رہی ہے
بلا کر مجھ کو محفل سے نکالا
یہ کیسی میزبانی ہو رہی ہے
بسا رکھی ہے دل میں ایک دنیا
پشیماں زندگانی ہو رہی ہے
یہ کس کا ذکر آیا ہے غزل میں
یہ کیسی گل فشانی ہو رہی ہے
حساب زندگی دینا پڑے گا
رقم ہر اک کہانی ہو رہی ہے
جفا اس کی کرونا کی طرح سے
بلائے ناگہانی ہو رہی ہے
کہاں آتی ہے مجھ کو شعر گوئی
خدا کی مہربانی ہو رہی ہے
کسی طوفان کا ہے پیش خیمہ
خموشی ذو معانی ہو رہی ہے
کوئی رنگین لمحہ ذہن میں ہے
جو صورت زعفرانی ہو رہی ہے
کرشمہ ہے یہ سب اس کی نظر کا
جوانی جاودانی ہو رہی ہے
مبرا اس سے اب کوئی نہیں ہے
انا بھی خاندانی ہو رہی ہے