وہ طلوع منظر پر اثر تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ طلوع منظر پر اثر تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ وداع شب وہ نئی سحر تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی چاند تاروں میں ڈھونڈھنا کبھی ماہ پاروں میں دیکھنا
وہ تلاش جلوۂ معتبر تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تھیں سخن سخن تری رفعتیں وہ غزل غزل تری نکہتیں
تھا تو شعر شعر میں جلوہ گر تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی اشک ریز روایتیں وہ وداع کی بری ساعتیں
تھا عجیب منظر غم اثر تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ترے غمزے غمزے کا علم تھا تری ہر ادا سے تھا آشنا
وہ مری بصارت با خبر تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ترا جاں نثار تھا اور ہوں اسی طرح ہوں اسی طور ہوں
میں صہیبؔ شاعر دیدہ ور تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو