دل میں ہو جو بھی بہر خدا کہہ لیا کرو
دل میں ہو جو بھی بہر خدا کہہ لیا کرو
اچھا نہیں کہو تو برا کہہ لیا کرو
خون جگر کو رنگ حنا کہہ لیا کرو
ان کے ستم کو ان کی ادا کہہ لیا کرو
تہذیب غم یہ کہتی ہے خاموش لب رہیں
آنکھوں سے اپنی شکوہ گلہ کہہ لیا کرو
ممکن نہیں ہے دوست غم عشق سے نجات
اب درد کو ہی دل کی دوا کہہ لیا کرو
یہ بھی عطا ہے اس کی جسے وہ نواز دے
غزلوں میں تم بھی حمد و ثنا کہہ لیا کرو
ظلمت کدہ میں کرتے ہو کیوں روشنی تلاش
تاریکیوں کو ہنس کے ضیا کہہ لیا کرو
احباب دے رہے ہیں تقیے کا مشورہ
رہزن کو تم بھی راہنما کہہ لیا کرو
رسماً دعا کو ہاتھ اٹھانے سے فائدہ
کچھ تو دعا میں حرف دعا کہہ لیا کرو
لب کھولنے کی تم کو اجازت نہیں صہیبؔ
خاموشیوں کو دل کی صدا کہہ لیا کرو