تو اگر بے وفا نہیں ہوتی

تو اگر بے وفا نہیں ہوتی
یہ قیامت بپا نہیں ہوتی


موت اس کو شکست دیتی ہے
زندگی بے وفا نہیں ہوتی


کاش میں بھی نہ روٹھتا اس سے
کاش وہ بھی خفا نہیں ہوتی


میں اگر سچ کو جھوٹ کہہ دیتا
مجھ کو ہرگز سزا نہیں ہوتی


اس کی زلفوں کی یاد آتی ہے
جب فلک پر گھٹا نہیں ہوتی


وحشتیں اور بڑھتی جاتی ہیں
چاک جب تک قبا نہیں ہوتی


کب سے سورج جگا رہا ہے مجھے
چشم خوابیدہ وا نہیں ہوتی


چارہ گر کیوں فریب دیتے ہیں
درد دل کی دوا نہیں ہوتی


جو دواؤں سے کام چلتا صہیبؔ
تو یقیناً دعا نہیں ہوتی