Suhaib Farooqui

صہیب فاروقی

صہیب فاروقی کی غزل

    یہ کیسا تغافل ہے بتا کیوں نہیں دیتے

    یہ کیسا تغافل ہے بتا کیوں نہیں دیتے ہونٹوں پہ لگا قفل ہٹا کیوں نہیں دیتے جو مجھ سے عداوت ہے سزا کیوں نہیں دیتے اک ضرب مرے دل پہ لگا کیوں نہیں دیتے دشمن ہوں تو نظروں سے گرا کیوں نہیں دیتے مجرم کو سلیقے سے سزا کیوں نہیں دیتے کس واسطے رکھتے ہو اسے دل سے لگائے چپ چاپ میرا خط یہ جلا ...

    مزید پڑھیے

    رفتہ رفتہ خواہشوں کو مختصر کرتے رہے

    رفتہ رفتہ خواہشوں کو مختصر کرتے رہے رفتہ رفتہ زندگی کو معتبر کرتے رہے اک خطا تو عمر بھر ہم جان کر کرتے رہے فاصلے بڑھتے گئے پھر بھی سفر کرتے رہے خود فریبی دیکھیے شمعیں بجھا کر رات میں ہم اجالوں کی تمنا تا سحر کرتے رہے ہم سفر جا پہنچے کب کہ منزل مقصود پر ہم خیالوں میں تلاش رہ گزر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3