کبھی طوفان کے ڈر سے قدم موڑے نہیں جاتے

کبھی طوفان کے ڈر سے قدم موڑے نہیں جاتے
کسی صورت اصول زندگی توڑے نہیں جاتے


کسی سے آس کیا رکھنا مداوا کیوں کرے کوئی
جو ہم خود آپ اٹکاتے ہیں وہ روڑے نہیں جاتے


کوئی چاقو کوئی خنجر یا پھر تلوار لے کر آ
کہ ہم سے خون کے رشتے یوں ہی توڑے نہیں جاتے


ارے ناداں ذرا تھم جا گھڑی بھر سوچ لے رک کے
کسی بد ذوق کے پیچھے کبھی دوڑے نہیں جاتے


ہمارے ضبط کی کشتی بہت ہی ڈگمگاتی ہے
مگر امید کے دامن یوں ہی چھوڑے نہیں جاتے


قدم آہستہ رکھیے گا ارے یہ شیشۂ دل ہیں
اگر یہ ٹوٹ جاتے ہیں تو پھر جوڑے نہیں جاتے