ہم کو ایسا گمان ہونے لگا
ہم کو ایسا گمان ہونے لگا
وقت کچھ مہربان ہونے لگا
دل میں کس کا خیال آیا ہے
خوشبو خوشبو مکان ہونے لگا
اس نے زلفیں بکھیر دیں اپنی
بادلوں کا گمان ہونے لگا
پھر کبوتر اڑائے ہیں اس نے
پھر لو امن و امان ہونے لگا
ان کی نظریں بدل گئیں شاید
وقت نامہربان ہونے لگا
پھر وہ روٹھا ہے چاند سا چہرہ
پھر مرا امتحان ہونے لگا
دل نہیں ہے دماغ کے تابع
منتشر خاندان ہونے لگا
عمر کا کون سا پڑاؤ ہے یہ
جسم جرجر مکان ہونے لگا
اب زمیں پر قدم نہیں ٹکتے
قد مرا آسمان ہونے لگا
کوئی قیمت نہیں ہے ایماں کی
یہ بھی مفلس کی جان ہونے لگا
آ گئے دن چھڑی پکڑنے کے
میرا بیٹا جوان ہونے لگا
جب سے سایا اٹھا بزرگوں کا
سر سے گم سائبان ہونے لگا
روح اکتا گئی بدن سے صہیبؔ
جسم جب سے کمان ہونے لگا