ابر سیاہ قوس قزح چاندنی غزل
ابر سیاہ قوس قزح چاندنی غزل
ہر منظر حیات میں ڈھلتی رہی غزل
شانوں پہ اس نے ڈال دی اک سرمئی غزل
جیسے فلک سے آئے کوئی جھومتی غزل
اوڑھی کبھی تو ہم نے بچھائی کبھی غزل
لیکن ہمارے کام نہ آئی کوئی غزل
جب بھی تصورات نے آواز دی تجھے
تحریر دل پہ ہو گئی اک چاند سی غزل
ہر شے حضور حسن میں ناکام ہو گئی
ہو پنکھڑی گلاب کی یا میرؔ کی غزل
کس کے فراق نے اسے دیوانہ کر دیا
پھرتی ہے ماری ماری گلی در گلی غزل
وہ اور تھے کہ جن کو صحیفے دئیے گئے
ہم جیسے اہل دل پہ اتاری گئی غزل
دے کر مرے خیال کو تابندہ پیرہن
استاد محترم نے سنواری مری غزل
پڑھتے رہے صہیبؔ بڑی آن بان سے
ہم روز محفلوں میں چرائی ہوئی غزل