آئنہ ہو کے آئنہ نہ ہوا

آئنہ ہو کے آئنہ نہ ہوا
اس کا وعدہ کبھی وفا نہ ہوا


اک ستم بھی کرم نما نہ ہوا
زخم کھا کر بھی کچھ بھلا نہ ہوا


اس کو اپنا بنانا چاہا تھا
ہم سے اظہار مدعا نہ ہوا


بات کرتے تو بات بن جاتی
بات کرنے کا حوصلہ نہ ہوا


اس نے زلفوں سے ڈھک لیا چہرہ
چاند سے کوئی رابطہ نہ ہوا


ہر نظر میں ہے وصل کی چاہت
عشق میں کوئی پارسا نہ ہوا


ٹوٹے رشتوں کو جوڑتے کیسے
جب کبھی اس سے سامنا نہ ہوا


بات ہم خودکشی کی کیوں کرتے
حق بھی جینے کا جب ادا نہ ہوا


ہم کو تنہائیوں کے معبد میں
کچھ بھی کہنے کا حوصلہ نہ ہوا


لاکھ دعوے کئے خدائی کے
ایک فرعون بھی خدا نہ ہوا


دل تو منسوب تھا اسی سے صہیبؔ
عمر بھر جس سے رابطہ نہ ہوا