کوئی قیمت لگانے والا ہو

کوئی قیمت لگانے والا ہو
میں بھی نیلام ہونے آیا ہوں
اپنے ماضی کے بوجھ ہیں سر پر
گھڑیاں بھر بھر کے درد لایا ہوں


اے میری بے زبان بے زاری
مجھ سے اتنا نہ روٹھ میرے لیے
میں نے اپنے حسین لمحوں میں
تجھ کو شادابیوں کے خواب دیے


اب وہ سب خواب کب کے ٹوٹ چکے
سارے احساس ٹوٹ پھوٹ چکے
وقت کی بے ثبات راہوں میں
سارے چہرے گلاب چھوٹ چکے


اب تو بس کچھ بچی کھچی یادیں
اور کچھ تشنہ سی ملاقاتیں
حسرتیں ہیں کہ جن کی تابانی
میری میراث ہے میں لایا ہوں


کوئی قیمت لگانے والا ہو
میں بھی نیلام ہونے آیا ہوں