سراب ذات
میں وہ نہیں ہوں
میں ہوں جو شاید
میں اپنے ہونے سے کچھ الگ ہوں
حیات کی کچھ علامتوں میں
نگار جاں کی قباحتوں میں
فریب جیسی صداقتوں میں
تمام اندھی بصارتوں میں
میں خود کو آواز دے رہا ہوں
نہ جانے کب سے یہیں کھڑا ہوں
مگر میں ہوں کب
یہ میرے ہونے کا ایک دھوکہ
مجھے بھی حیران کر رہا ہے
کہ میں کہیں ہوں
میں وہ نہیں ہوں
میں…. وہ نہیں ہوں