شمیم شہزاد کے تمام مواد

9 غزل (Ghazal)

    یہ کیسی وادی ہے یہ کیسا اک قبیلہ ہے

    یہ کیسی وادی ہے یہ کیسا اک قبیلہ ہے ہر ایک جسم سمندر کی طرح نیلا ہے تنا ہوا جو کبھی رہتا تھا کماں کی طرح اسی بدن کا ہر اک جوڑ آج ڈھیلا ہے بھلانا تم کو بہت ہی محال ہے پیارے تمہارے واسطے جذبہ جو ہے ہٹیلا ہے یہ کیسے سمجھوں کہ تم بھی ہو ہم سفر میرے تمہارے شہر کا ماحول تو رنگیلا ...

    مزید پڑھیے

    جدھر بھی دیکھیے اک پھیکا پھیکا منظر ہے

    جدھر بھی دیکھیے اک پھیکا پھیکا منظر ہے نظر نظر کے لیے بے بسی کا منظر ہے نہ تتلیاں ہیں نہ بھنورے نہ کوک کوئل کی بہار رت میں بھی بے منظری کا منظر ہے سزا کے بعد بھی پھرتا ہے سر اٹھائے ہوئے ادھر نہ دیکھو وہ اب بھی نفی کا منظر ہے کرن بھی پھوٹ پڑی شاخیں بھی ہوئیں خالی مگر سڑک پہ ابھی ...

    مزید پڑھیے

    اے نئے دور کوئی خواب نیا لے آنا

    اے نئے دور کوئی خواب نیا لے آنا ڈوبنا ہے مجھے سیلاب نیا لے آنا کوئی اب سننے کو تیار نہیں کہنہ صدا شہر آشوب میں مضراب نیا لے آنا تیرگی اتنی کہ آنکھوں کا بھی دم گھٹتا ہے ہو سکے تو کوئی مہتاب نیا لے آنا اس سے پہلے کہ تمہیں جھیل کوئی کہہ اٹھے ذہن کی ندی میں گرداب نیا لے آنا خود کو ...

    مزید پڑھیے

    افق سے جب بھی نیا آفتاب ابھرے گا

    افق سے جب بھی نیا آفتاب ابھرے گا بشکل کرب برنگ عذاب ابھرے گا ہر ایک موج سمندر میں چھپ کے بیٹھ گئی اس اک یقیں پہ کبھی تو حباب ابھرے گا یہ گہری ہوتی ہوئی خامشی بتاتی ہے وہ دن قریب ہے جب انقلاب ابھرے گا ندی وہ ریت کی ہوگی جدھر بھی دیکھو گے لگے گی پیاس تو ہر سو سراب ابھرے گا میں ...

    مزید پڑھیے

    استعارہ ہے وہ اک تمثیل ہے

    استعارہ ہے وہ اک تمثیل ہے تیرگی کے شہر میں قندیل ہے دل کشی نظاروں کی جاتی رہی وہ پرندہ ہے نہ اب وہ جھیل ہے فاختہ امن و اماں کی کیوں رہے گنبدوں کی تاک میں جب چیل ہے رنگ جیسا بھی ہو تیری جلد کا دل تو تیرا اب بھی مثل بھیل ہے پھر بھی لہجہ ہے نیا شہزادؔ کا گو کہ اس کے شعر میں ترسیل ...

    مزید پڑھیے

تمام

5 نظم (Nazm)

    سماعت کا دھوکا

    کھلا ہوا دروازہ ہاں مگر دبیز پردہ گرا ہوا باہر سے کھلے پٹ پہ ایک دستک اندر سے آواز آئے سماعت کا دھوکا آئیے پردہ کا ہٹنا چوڑیوں کا کھنک اٹھنا حیرتوں کا حملہ شرمندگی کی چھینٹیں سکوت کی فتح ندامت کے آنسو دوستی کا واسطہ

    مزید پڑھیے

    بے رنگ شجر

    زندگی کی شاخ سے زرد پتوں کی صورت ایک ایک کرکے رنگ برنگی آرزوئیں ٹوٹ کر گرتی جا رہی ہیں خاک ہوتی جا رہی ہیں شجر وجود کا بے برگ ہوتا جا رہا ہے محرومیوں کے ہاتھوں اجڑتا جا رہا ہے

    مزید پڑھیے

    میں اجنبی نہیں

    مرے خدا تو مرے قلب کو منور کر مرے وجود کو بہتر سے اور بہتر کر مری حیات ترے ذکر میں گزر جائے کرم بس اتنا اے پروردگار مجھ پر کر اگر ہے سر پہ مرے آفتاب ہی رکھنا نصیب میں ہے اگر اضطراب ہی رکھنا تو اے خدائے کریم اک یہی دعا سن لے ہر امتحاں میں مجھے کامیاب ہی رکھنا مرا ضمیر کبھی داغدار ...

    مزید پڑھیے

    کاش ایسا نہ سانحہ ہوتا

    کاش وہ لمحہ خواب سا ہوتا کاش وہ لمحہ وہم سا ہوتا کاش وہ لمحہ دوسرا ہوتا بچے ٹی وی ہی دیکھتے ہوتے چائے بھی گھر میں بن رہی ہوتی پیالیاں کھنکھنا رہی ہوتیں چہرے چہرے پہ زندگی ہوتی اک دھماکا عجیب کیوں ہوتا ایک جلتا مکان کیوں ہوتا ایک اجڑا جہان کیوں ہوتا سانحہ اک بیان کیوں ہوتا کسی ...

    مزید پڑھیے

    امید مری شہزادی تھی

    امی کی محبت ملتی ہے ابو کی بھی شفقت ملتی ہے اے ماضی ترے اک دامن سے کیا کیا مجھے دولت ملتی ہے بچپن کا زمانہ تجھ میں ہے ہر لمحہ سہانا تجھ میں ہے جو خوابوں کو دستک دیتا تھا وہ عہد پرانا تجھ میں ہے ناکامی نہ یہ نا شادی تھی بے فکری تھی آزادی تھی شہزادہ تھا میں ارمانوں کا امید مری ...

    مزید پڑھیے