اے نئے دور کوئی خواب نیا لے آنا

اے نئے دور کوئی خواب نیا لے آنا
ڈوبنا ہے مجھے سیلاب نیا لے آنا


کوئی اب سننے کو تیار نہیں کہنہ صدا
شہر آشوب میں مضراب نیا لے آنا


تیرگی اتنی کہ آنکھوں کا بھی دم گھٹتا ہے
ہو سکے تو کوئی مہتاب نیا لے آنا


اس سے پہلے کہ تمہیں جھیل کوئی کہہ اٹھے
ذہن کی ندی میں گرداب نیا لے آنا


خود کو شہزادؔ جو حجاجؔ بنانا ہو تمہیں
اپنی تحریر میں اعراب نیا لے آنا