امید مری شہزادی تھی
امی کی محبت ملتی ہے
ابو کی بھی شفقت ملتی ہے
اے ماضی ترے اک دامن سے
کیا کیا مجھے دولت ملتی ہے
بچپن کا زمانہ تجھ میں ہے
ہر لمحہ سہانا تجھ میں ہے
جو خوابوں کو دستک دیتا تھا
وہ عہد پرانا تجھ میں ہے
ناکامی نہ یہ نا شادی تھی
بے فکری تھی آزادی تھی
شہزادہ تھا میں ارمانوں کا
امید مری شہزادی تھی
ہر کینہ حسد سے دور تھا میں
ہر عادت بد سے دور تھا میں
معصوم طبیعت تھی میری
شیطان کی زد سے دور تھا میں
یہ چاند کھلونا تھا میرا
اک سپنا سنہرا تھا میرا
مٹھی میں تھی دنیا بند مری
یہ سارا زمانہ تھا میرا
بچپن کا زمانہ بیت گیا
وہ میت گئے وہ گیت گیا
شہزادؔ اب اکثر سوچتا ہوں
کیا ہار گیا کیا جیت گیا