میں اجنبی نہیں
مرے خدا تو مرے قلب کو منور کر
مرے وجود کو بہتر سے اور بہتر کر
مری حیات ترے ذکر میں گزر جائے
کرم بس اتنا اے پروردگار مجھ پر کر
اگر ہے سر پہ مرے آفتاب ہی رکھنا
نصیب میں ہے اگر اضطراب ہی رکھنا
تو اے خدائے کریم اک یہی دعا سن لے
ہر امتحاں میں مجھے کامیاب ہی رکھنا
مرا ضمیر کبھی داغدار ہو نہ سکے
کسی کے سامنے بھی شرمسار ہو نہ سکے
مجھے تو نفس کا میرے کبھی غلام نہ کر
کبھی وہ ذہن پہ ہرگز سوار ہو نہ سکے
مرے شعور کو کچھ اور ہی قوی کر دے
تو میرے ذہن کو کچھ اور ہی غنی کر دے
ہر ایک لفظ میں میں زندگی پروتا رہوں
تو میرے کرب کو کچھ اور شبنمی کر دے
میں جانتا ہوں کہ کچھ بھی نہیں ہوں دنیا میں
جدا جدا سا ہوں گوشہ نشیں ہوں دنیا میں
مگر ہے پھر بھی ترا شکر اے مرے مالک
میں اجنبی نہیں روشن جبیں ہوں دنیا میں