افق سے جب بھی نیا آفتاب ابھرے گا

افق سے جب بھی نیا آفتاب ابھرے گا
بشکل کرب برنگ عذاب ابھرے گا


ہر ایک موج سمندر میں چھپ کے بیٹھ گئی
اس اک یقیں پہ کبھی تو حباب ابھرے گا


یہ گہری ہوتی ہوئی خامشی بتاتی ہے
وہ دن قریب ہے جب انقلاب ابھرے گا


ندی وہ ریت کی ہوگی جدھر بھی دیکھو گے
لگے گی پیاس تو ہر سو سراب ابھرے گا


میں اپنے ہاتھوں سے آکاش چھونے والا ہوں
تری جبیں سے بھی اب ماہتاب ابھرے گا


وہ ایک شخص جو گمنامیوں میں ڈوبا تھا
کسے خبر تھی کہ لے کر کتاب ابھرے گا


مرا جو عزم سلامت رہا تو اے شہزادؔ
جوار دشت سے اک شہر خواب ابھرے گا