شمیم شہزاد کی نظم

    سماعت کا دھوکا

    کھلا ہوا دروازہ ہاں مگر دبیز پردہ گرا ہوا باہر سے کھلے پٹ پہ ایک دستک اندر سے آواز آئے سماعت کا دھوکا آئیے پردہ کا ہٹنا چوڑیوں کا کھنک اٹھنا حیرتوں کا حملہ شرمندگی کی چھینٹیں سکوت کی فتح ندامت کے آنسو دوستی کا واسطہ

    مزید پڑھیے

    بے رنگ شجر

    زندگی کی شاخ سے زرد پتوں کی صورت ایک ایک کرکے رنگ برنگی آرزوئیں ٹوٹ کر گرتی جا رہی ہیں خاک ہوتی جا رہی ہیں شجر وجود کا بے برگ ہوتا جا رہا ہے محرومیوں کے ہاتھوں اجڑتا جا رہا ہے

    مزید پڑھیے

    میں اجنبی نہیں

    مرے خدا تو مرے قلب کو منور کر مرے وجود کو بہتر سے اور بہتر کر مری حیات ترے ذکر میں گزر جائے کرم بس اتنا اے پروردگار مجھ پر کر اگر ہے سر پہ مرے آفتاب ہی رکھنا نصیب میں ہے اگر اضطراب ہی رکھنا تو اے خدائے کریم اک یہی دعا سن لے ہر امتحاں میں مجھے کامیاب ہی رکھنا مرا ضمیر کبھی داغدار ...

    مزید پڑھیے

    کاش ایسا نہ سانحہ ہوتا

    کاش وہ لمحہ خواب سا ہوتا کاش وہ لمحہ وہم سا ہوتا کاش وہ لمحہ دوسرا ہوتا بچے ٹی وی ہی دیکھتے ہوتے چائے بھی گھر میں بن رہی ہوتی پیالیاں کھنکھنا رہی ہوتیں چہرے چہرے پہ زندگی ہوتی اک دھماکا عجیب کیوں ہوتا ایک جلتا مکان کیوں ہوتا ایک اجڑا جہان کیوں ہوتا سانحہ اک بیان کیوں ہوتا کسی ...

    مزید پڑھیے

    امید مری شہزادی تھی

    امی کی محبت ملتی ہے ابو کی بھی شفقت ملتی ہے اے ماضی ترے اک دامن سے کیا کیا مجھے دولت ملتی ہے بچپن کا زمانہ تجھ میں ہے ہر لمحہ سہانا تجھ میں ہے جو خوابوں کو دستک دیتا تھا وہ عہد پرانا تجھ میں ہے ناکامی نہ یہ نا شادی تھی بے فکری تھی آزادی تھی شہزادہ تھا میں ارمانوں کا امید مری ...

    مزید پڑھیے