کاش ایسا نہ سانحہ ہوتا

کاش وہ لمحہ خواب سا ہوتا
کاش وہ لمحہ وہم سا ہوتا
کاش وہ لمحہ دوسرا ہوتا


بچے ٹی وی ہی دیکھتے ہوتے
چائے بھی گھر میں بن رہی ہوتی
پیالیاں کھنکھنا رہی ہوتیں
چہرے چہرے پہ زندگی ہوتی


اک دھماکا عجیب کیوں ہوتا
ایک جلتا مکان کیوں ہوتا
ایک اجڑا جہان کیوں ہوتا
سانحہ اک بیان کیوں ہوتا


کسی بچے کی چیخ کیوں گھٹتی
کسی عورت کی مانگ کیوں لٹتی
کسی کی مٹھی سرد کیوں ہوتی
کوئی چہرہ اداس کیوں ہوتا
کوئی خوف و ہراس کیوں ہوتا
ریزہ ریزہ حیات کیوں ہوتی
زندگی بے لباس کیوں ہوتی


زندگی کی کلی کھلی ملتی
شاخ امید بھی ہری ملتی
تازگی ہر طرف بچھی ملتی


اک تجسس سا لے کے آنکھوں میں
لوگ اس سمت کس لئے جاتے
اور کیوں لوٹتے لرزتے ہوئے
کاش وہ لمحہ خواب سا ہوتا
کاش وہ لمحہ وہم سا ہوتا


کاش ایسا نہ سانحہ ہوتا