جدھر بھی دیکھیے اک پھیکا پھیکا منظر ہے
جدھر بھی دیکھیے اک پھیکا پھیکا منظر ہے
نظر نظر کے لیے بے بسی کا منظر ہے
نہ تتلیاں ہیں نہ بھنورے نہ کوک کوئل کی
بہار رت میں بھی بے منظری کا منظر ہے
سزا کے بعد بھی پھرتا ہے سر اٹھائے ہوئے
ادھر نہ دیکھو وہ اب بھی نفی کا منظر ہے
کرن بھی پھوٹ پڑی شاخیں بھی ہوئیں خالی
مگر سڑک پہ ابھی رات ہی کا منظر ہے
وہ ایک شخص جو بنتا ہے پارسا پیکر
اس ایک شخص کے گھر میں گلی کا منظر ہے