Shakir Husain Islahi

شاکر حسین اصلاحی

شاکر حسین اصلاحی کی غزل

    بزدلی سی کہاں یہ مرتی ہیں

    بزدلی سی کہاں یہ مرتی ہیں مشکلیں حوصلوں سے ڈرتی ہیں اشک آتے ہیں جب ندامت کے میری آنکھیں بہت نکھرتی ہیں کاٹ دو ہاتھ ان ہواؤں کے جو چراغوں کا قتل کرتی ہیں کرنی پڑتی ہیں پہلے تدبیریں پھر کہیں قسمتیں سنورتی ہیں خواہشیں مفلسوں کے سینے میں روز جیتی ہیں روز مرتی ہیں صبر کی حد میں ...

    مزید پڑھیے

    خواہش قتل عام کرنے لگے

    خواہش قتل عام کرنے لگے اپنا جینا حرام کرنے لگے منزلیں دور ہی رہیں ان سے جو مسافر قیام کرنے لگے وہ یہ سمجھے کہ کچھ ضرورت ہے ہم انہیں جب سلام کرنے لگے ان اندھیروں کے حوصلے دیکھو روشنی زیر دام کرنے لگے عشق چھوٹا تو ہوش میں آئے ہم بھی اب کام دھام کرنے لگے ہوش اڑنے لگے ہیں خاروں ...

    مزید پڑھیے

    مرے جنوں کے فسانے بدلتے رہتے ہیں

    مرے جنوں کے فسانے بدلتے رہتے ہیں کہ خواب لمحے سہانے بدلتے رہتے ہیں نہ بدلا آج بھی مفہوم حق و باطل کا یہ اور بات زمانے بدلتے رہتے ہیں میں ان کے تیر کا ہنس کر جواب دیتا ہوں مرے عزیز نشانے بدلتے رہتے ہیں فقیر کچے مکانوں میں مست ہیں لیکن امیر لوگ ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں پتہ میں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی جھوٹا قیاس رہنے دو

    کوئی جھوٹا قیاس رہنے دو مجھ سے ملنے کی آس رہنے دو جشن گریہ کا اہتمام کرو زندگی ہے اداس رہنے دو زخم دل کے ہرے دکھائی دیں اس حویلی میں گھاس رہنے دو چاندنی چھپ گئی ہے بادل میں چاند کو بد حواس رہنے دو شمع جگنو چراغ بے چینی رات کے آس پاس رہنے دو ملتمس ہو کے کیا ملا شاکرؔ مت کرو ...

    مزید پڑھیے

    تیری یادیں ہلاک کر دیں گی

    تیری یادیں ہلاک کر دیں گی قصۂ زیست پاک کر دیں گی خواہشیں خنجروں کی ہیں مانند یہ مرے دل کو چاک کر دیں گی شہرتوں پر غرور مت کرنا یہ تجھے مثل خاک کر دیں گی یہ ہمارے لہو کی چھیٹیں ہیں تیرے دامن کو پاک کر دیں گی غم کی تاریکیاں بھی ممکن ہے زندگی تابناک کر دیں گی شاکرؔ آ جاؤ اب مری ...

    مزید پڑھیے

    کس کی یادوں کا فیض جاری ہے

    کس کی یادوں کا فیض جاری ہے کس لئے اتنی آہ و زاری ہے سی لئے ہونٹ پی لئے آنسو یہ ہی تہذیب انکساری ہے کس کی یادوں میں جاگتے ہو تم کس کے خوابوں کی ذمہ داری ہے صرف عنواں بدل دیا تم نے ورنہ یہ داستاں ہماری ہے جتنے احسان ہیں تمہارے ہیں جو خطا ہے فقط ہماری ہے میرؔ صاحب بھی خوب کہتے ...

    مزید پڑھیے

    ہر سفر ہے نئے سرابوں کا

    ہر سفر ہے نئے سرابوں کا جیسے اک سلسلہ عذابوں کا باقی تاریکیوں کی خواہش ہے قتل کرنا ہے آفتابوں کا جانے کس دھن میں زندگی گزری چہرہ تکتے رہے کتابوں کا روبرو اب کہاں ملاقاتیں سلسلہ رہ گیا ہے خوابوں کا برچھیاں رتجگوں کی چلتی ہیں قتل ہوتا ہے روز خوابوں کا میری خلوت میں آنا جانا ...

    مزید پڑھیے

    جسم کا بوجھ کم کیا جائے

    جسم کا بوجھ کم کیا جائے سر ہمارا قلم کیا جائے چشم خوناب دیکھنا ہے اگر خون پانی میں ضم کیا جائے صرف اتنا سا مشورہ ہے مرا ہر کہیں سر نہ خم کیا جائے آنسوؤں سے لکھیں فسانۂ غم تھوڑا کاغذ بھی نم کیا جائے آ گئے ہیں وہ خواب گاہ میں اب ان چراغوں کو کم کیا جائے اب بھی کچھ اعتراض ہے مجھ ...

    مزید پڑھیے

    رنج و غم کا ملال کیا کرتے

    رنج و غم کا ملال کیا کرتے اس سے ہم عرض حال کیا کرتے جو ہمارا کبھی ہوا ہی نہیں اس سے دل کا سوال کیا کرتے قفل غیرت پڑا تھا ہونٹوں پر ہم کسی سے سوال کیا کرتے سامنے تھی اداس تنہائی کوئی رنگیں خیال کیا کرتے سونپ کر مطمئن تھے ہم ان کو دل کی پھر دیکھ بھال کیا کرتے جن کو ہم نے سنبھال ...

    مزید پڑھیے

    تلخ لہجے میں بولنے والے

    تلخ لہجے میں بولنے والے ہم ہیں لفظوں کو تولنے والے اب خسارے میں ہیں سیاست کے اپنے پتوں کو کھولنے والے طنز کرتے ہیں آسمانوں پر جو ہیں شاخوں پہ ڈولنے والے بہہ گئے نفرتوں کے دریا میں رنگ نفرت کا گھولنے والے اب کہاں لہجے زعفرانی سے رس بھی باتوں سے گھولنے والے میرا سودا نہ کر ...

    مزید پڑھیے