کس کی یادوں کا فیض جاری ہے
کس کی یادوں کا فیض جاری ہے
کس لئے اتنی آہ و زاری ہے
سی لئے ہونٹ پی لئے آنسو
یہ ہی تہذیب انکساری ہے
کس کی یادوں میں جاگتے ہو تم
کس کے خوابوں کی ذمہ داری ہے
صرف عنواں بدل دیا تم نے
ورنہ یہ داستاں ہماری ہے
جتنے احسان ہیں تمہارے ہیں
جو خطا ہے فقط ہماری ہے
میرؔ صاحب بھی خوب کہتے ہیں
عشق پتھر ہے اور بھاری ہے
بہہ رہی ہے فرات غم شاکرؔ
آنسوؤں کی سبیل جاری ہے