ہر سفر ہے نئے سرابوں کا
ہر سفر ہے نئے سرابوں کا
جیسے اک سلسلہ عذابوں کا
باقی تاریکیوں کی خواہش ہے
قتل کرنا ہے آفتابوں کا
جانے کس دھن میں زندگی گزری
چہرہ تکتے رہے کتابوں کا
روبرو اب کہاں ملاقاتیں
سلسلہ رہ گیا ہے خوابوں کا
برچھیاں رتجگوں کی چلتی ہیں
قتل ہوتا ہے روز خوابوں کا
میری خلوت میں آنا جانا ہے
آفتابوں کا ماہتابوں کا
ان پہ چھڑکیں ذرا لہو میرا
رنگ پھینکا ہے کچھ گلابوں کا
جس سے ہنس کر لڑا ہوں میں شاکرؔ
ایک لشکر تھا اضطرابوں کا