بزدلی سی کہاں یہ مرتی ہیں
بزدلی سی کہاں یہ مرتی ہیں مشکلیں حوصلوں سے ڈرتی ہیں اشک آتے ہیں جب ندامت کے میری آنکھیں بہت نکھرتی ہیں کاٹ دو ہاتھ ان ہواؤں کے جو چراغوں کا قتل کرتی ہیں کرنی پڑتی ہیں پہلے تدبیریں پھر کہیں قسمتیں سنورتی ہیں خواہشیں مفلسوں کے سینے میں روز جیتی ہیں روز مرتی ہیں صبر کی حد میں ...