تلخ لہجے میں بولنے والے

تلخ لہجے میں بولنے والے
ہم ہیں لفظوں کو تولنے والے


اب خسارے میں ہیں سیاست کے
اپنے پتوں کو کھولنے والے


طنز کرتے ہیں آسمانوں پر
جو ہیں شاخوں پہ ڈولنے والے


بہہ گئے نفرتوں کے دریا میں
رنگ نفرت کا گھولنے والے


اب کہاں لہجے زعفرانی سے
رس بھی باتوں سے گھولنے والے


میرا سودا نہ کر سکے شاکرؔ
مجھ کو سکوں میں تولنے والے