خواہش قتل عام کرنے لگے
خواہش قتل عام کرنے لگے
اپنا جینا حرام کرنے لگے
منزلیں دور ہی رہیں ان سے
جو مسافر قیام کرنے لگے
وہ یہ سمجھے کہ کچھ ضرورت ہے
ہم انہیں جب سلام کرنے لگے
ان اندھیروں کے حوصلے دیکھو
روشنی زیر دام کرنے لگے
عشق چھوٹا تو ہوش میں آئے
ہم بھی اب کام دھام کرنے لگے
ہوش اڑنے لگے ہیں خاروں کے
پھول جب سے کلام کرنے لگے
زندگی کی صلیب ٹوٹ گئی
موت کا انتظام کرنے لگے
زندگی کے اداس دریا میں
کچھ سمندر قیام کرنے لگے
یہ ہے معراج تشنگی شاکرؔ
چڑھتے دریا سلام کرنے لگے