کوئی ملا تھا سر راہ اک زمانہ ہوا
کوئی ملا تھا سر راہ اک زمانہ ہوا
پھر اس کے بعد کوئی ایسا سانحہ نہ ہوا
کھلے جو پھول کرے احترام زخم جگر
یہ پھول وہ ہے جو منت کش صبا نہ ہوا
ابھی سے ترک تعلق کا کیوں خیال آیا
ابھی تو زیست کا مفہوم بھی ادا نہ ہوا
مری صدا کہ رہی ہے صدائے بے آواز
مگر یہ شہر نوا ہمرہ نوا نہ ہوا
رہ وفا میں سنا ہے کہ کارواں نشترؔ
ٹھہر گئے ہیں جہاں میرا نقش پا نہ ہوا