اسیر وعدۂ بے اعتبار بیٹھے ہیں
اسیر وعدۂ بے اعتبار بیٹھے ہیں
جہاں پہ چھوڑ گئی تھی بہار بیٹھے ہیں
نسیم صبح بہاری ادھر نہ آ کہ ادھر
فریب خوردۂ فصل بہار بیٹھے ہیں
بگولے رقص میں پھر آ گئے ہیں اور ہم لوگ
ابھی تو جھاڑ کے گرد و غبار بیٹھے ہیں
ہے لب پہ آہ فلک پر نگاہ تنگ زمیں
وطن نصیب غریب الدیار بیٹھے ہیں
کبھی تو ہاتھ پہنچ جائے گا گریباں تک
کبھی تو آئے گی فصل بہار بیٹھے ہیں
ہیں ان کے ہاتھ شہیدوں کے خوں سے تر نشترؔ
وہی جو صورت پروردگار بیٹھے ہیں