گلشن میں کوئی چاک گریباں بھی نہیں ہے

گلشن میں کوئی چاک گریباں بھی نہیں ہے
اور فصل بہار آنے کا امکاں بھی نہیں ہے


ہم نقد دل و جاں بھی لٹا آئے سر بزم
اور آپ پہ اس کا کوئی احساں بھی نہیں ہے


کس منہ سے کرے تیرے تغافل کی شکایت
جس پر کرم گردش دوراں بھی نہیں ہے


پوچھے جو کوئی حال تو کیا حال بتائے
وہ شخص جو کچھ دن سے پریشاں بھی نہیں ہے


وہ درد میسر ہے تو کیا چاہیے نشترؔ
وہ درد کہ جس کا کوئی درماں بھی نہیں ہے