وہی انداز دنیا ہے ابھی تک
وہی انداز دنیا ہے ابھی تک
غم امروز و فردا ہے ابھی تک
یہ دور ابتلا ہے اس میں انساں
یہ کیا کم ہے کہ زندہ ہے ابھی تک
اب آگے دیکھیے کیا فکر ہوگی
یہیں تک ہم نے سوچا ہے ابھی تک
ہوئی مدت ملے تھے لمحہ بھر کو
وہی لمحہ نہ گزرا ہے ابھی تک
اسی کو ڈھونڈھتی ہے آنکھ نشترؔ
وہی دل کا تقاضہ ہے ابھی تک