ایک بلور سی مورت تھی سراپے میں سحرؔ
ایک بلور سی مورت تھی سراپے میں سحرؔ چھن سے ٹوٹی ہے مگر ایک چھناکے میں سحرؔ پاؤں کی انگلیاں مڑ جاتی ہیں بیٹھے بیٹھے چیونٹیاں رینگتی ہیں تن کے برادے میں سحرؔ ٹوٹتے رہتے ہیں کچھ خواب ستاروں جیسے کرچیاں پھیلتی رہتی ہیں خرابے میں سحرؔ کاغذوں میں تو لکھا ہوگا اسی گھر کا پتا خود وہ ...