Shahnaz Parveen Sahar

شہناز پروین سحر

شہناز پروین سحر کی غزل

    ایک بلور سی مورت تھی سراپے میں سحرؔ

    ایک بلور سی مورت تھی سراپے میں سحرؔ چھن سے ٹوٹی ہے مگر ایک چھناکے میں سحرؔ پاؤں کی انگلیاں مڑ جاتی ہیں بیٹھے بیٹھے چیونٹیاں رینگتی ہیں تن کے برادے میں سحرؔ ٹوٹتے رہتے ہیں کچھ خواب ستاروں جیسے کرچیاں پھیلتی رہتی ہیں خرابے میں سحرؔ کاغذوں میں تو لکھا ہوگا اسی گھر کا پتا خود وہ ...

    مزید پڑھیے

    غبار وقت میں اب کس کو کھو رہی ہوں میں

    غبار وقت میں اب کس کو کھو رہی ہوں میں یہ بارشوں کا ہے موسم کہ رو رہی ہوں میں یہ چاند پورا تھا بے اختیار گھٹنے لگا یہ کیا مقام ہے کم عمر ہو رہی ہوں میں اس ابر باراں میں منظر برسنے لگتے ہیں برس رہی ہے گھٹا بال دھو رہی ہوں میں میں گرد باد کا اک سر پھرا بگولا تھی خلائیں اوڑھ کے روپوش ...

    مزید پڑھیے

    آنسو گرا تو کانچ کا موتی بکھر گیا

    آنسو گرا تو کانچ کا موتی بکھر گیا پھر صبح تک دوپٹا ستاروں سے بھر گیا میں چنری ڈھونڈھتی رہی اور اتنی دیر میں دروازے پر کھڑا ہوا اک خواب مر گیا سرما کی چاندنی تھی جوانی گزر گئی جھلسا رہی ہے دھوپ بڑھاپا ٹھہر گیا میں رفتگاں کی بات پہ بے ساختہ ہنسی انجام اس ہنسی کا بھی افسردہ کر ...

    مزید پڑھیے

    جو موج خوشبوؤں کی تھی گلاب سے نکل گئی

    جو موج خوشبوؤں کی تھی گلاب سے نکل گئی میں مضمحل تھی اس قدر شباب سے نکل گئی یہ زندگی یہ رخصتی اسی کی ہیں امانتیں شکستہ جسم میں ترے عذاب سے نکل گئی میں لکھ رہی تھی داستاں ترا بھی نام آ گیا کہانی اپنے آپ ہی کتاب سے نکل گئی وہ لمس بڑھ رہا تھا اب قریب سے قریب تر سو میں نے فیصلہ کیا ...

    مزید پڑھیے

    گلاس اک کانچ کا ٹوٹا پڑا ہے

    گلاس اک کانچ کا ٹوٹا پڑا ہے مجھے لگتا ہے وہ گھر آ گیا ہے ابابیلیں جو یوں چکرا رہی ہیں سندیسہ آسماں تک جا چکا ہے یہ گھر شاید ابھی تازہ گرا ہے کوئی ملبے کے نیچے جی رہا ہے یہ پہلے اس قدر میلا نہیں تھا نہ جانے آسماں کو کیا ہوا ہے ادھر کچھ آہٹیں ہونے لگی ہیں کوئی خالی مکاں میں چل رہا ...

    مزید پڑھیے

    سانس در سانس رائیگانی میں

    سانس در سانس رائیگانی میں کٹ گئی عمر بے دھیانی میں حجرۂ ذات میں چراغ جلا راہ نمائی تھی راہ فانی میں میں سناتی تھی داستان طرب درد ہنستا رہا کہانی میں ہیں زمان و مکان ہجرت میں عالم ہو کی لا مکانی میں کوئی صورت سنبھل نہیں پائی وقت کی بے کراں روانی میں بات بے بات ہنستی رہتی ...

    مزید پڑھیے

    اشک تھم گئے ہوں گے دل سنبھل گیا ہوگا

    اشک تھم گئے ہوں گے دل سنبھل گیا ہوگا جانے کون ساعت پھر دم نکل گیا ہوگا اتنی آگ تو صاحب پورا گھر جلا دے گی آنچ دھیمی کر لیجے دودھ ابل گیا ہوگا مانگ اجاڑنے والو گود کیا اجاڑو گے ماں غریب ہو کر بھی لعل پل گیا ہوگا اجنبی خلاؤں میں ڈار سے بچھڑتے ہی جال بچھ گئے ہوں گے وار چل گیا ...

    مزید پڑھیے

    کوئی شفقت بھری سرکار نہیں ہے گھر میں

    کوئی شفقت بھری سرکار نہیں ہے گھر میں جب سے بابا کی وہ دستار نہیں ہے گھر میں عمر کی بڑھتی تھکن سانس کی بیمار گھٹن ایک کمرہ بھی ہوا دار نہیں ہے گھر میں دکھ سنائیں کبھی گھبرائیں تو سر ٹکرائیں اس طرح کی کوئی دیوار نہیں ہے گھر میں کبھی آواز میں مرہم کبھی ماتھے پہ شکن میں سمجھتی تھی ...

    مزید پڑھیے

    پھر سر پہ شام آ گئی میں راستے میں ہوں

    پھر سر پہ شام آ گئی میں راستے میں ہوں اک اجنبی سڑک ہے کسی حادثے میں ہوں اک گرد باد ہے مجھے حد نگاہ تک تنہا نہیں ہوں دھول بھرے قافلے میں ہوں تنہائیوں نے پھر ترا چہرہ پہن لیا تیرے بغیر بھی میں ترے دائرے میں ہوں تو نے تو مجھ کو عکس مقید سمجھ لیا تھوڑی سی دیر اور ترے آئنے میں ...

    مزید پڑھیے

    چڑھے جو دھوپ تمازت سے جسم ہانپتے ہیں

    چڑھے جو دھوپ تمازت سے جسم ہانپتے ہیں جو دن بجھے تو ستاروں سے رات ڈھانکتے ہیں اندھیری رات پر اسرار گھر مکیں چپ چاپ مہیب سائے کھلی کھڑکیوں میں جھانکتے ہیں خیال و فکر کی تقویم میں سر افلاک دیے جلاتے ہیں تارے افق پہ ٹانکتے ہیں شکن سے لہجے کی دل میں دراڑ پڑتی ہے سو بے رخی تیرے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3