Shahnaz Parveen Sahar

شہناز پروین سحر

شہناز پروین سحر کی غزل

    ڈوب کر ابھرنے میں دیر کتنی لگتی ہے

    ڈوب کر ابھرنے میں دیر کتنی لگتی ہے رات کے گزرنے میں دیر کتنی لگتی ہے چنریوں میں چوڑی میں رنگ کتنے بھاتے ہیں رنگ کے اترنے میں دیر کتنی لگتی ہے ماں کے پیٹ میں بچہ روم روم بڑھتا ہے آدمی کو مرنے میں دیر کتنی لگتی ہے گھر کو گھر بنانے میں عمر بیت جاتی ہے پھر مکان گرنے میں دیر کتنی ...

    مزید پڑھیے

    دن ہوا جیسے روشنی ہی نہیں

    دن ہوا جیسے روشنی ہی نہیں چاند نکلا تو چاندنی ہی نہیں بیچ جنگل میں راہ بھولی تھی لوٹ کر گھر کبھی گئی ہی نہیں حال اور ماضی ایک جیسے ہیں وقت سے میری دوستی ہی نہیں میری آنکھوں کو لے اڑا بادل ایسی بارش ہوئی تھمی ہی نہیں بے سہارا تھکن ہے اور میں ہوں منزل عشق تک چلی ہی نہیں کچھ ...

    مزید پڑھیے

    چھوٹی سی اک اڑان بھری اور بکھر گیا

    چھوٹی سی اک اڑان بھری اور بکھر گیا چڑیا کا بوٹ پنکھے سے ٹکرا کے مر گیا سرما کی چاندنی تھی جوانی گزر گئی جھلسا رہی ہے دھوپ بڑھاپا ٹھہر گیا تا صبح جھلملائی مرے آنسوؤں میں شب بجھتا ہوا چراغ ستاروں سے بھر گیا پنہاریوں نے گاگروں میں نیر بھر لیے چڑھتی ندی کا مست بہاؤ اتر گیا آواز ...

    مزید پڑھیے

    عجب ہوا کہ مجھے موت سے حیات ہوئی

    عجب ہوا کہ مجھے موت سے حیات ہوئی جب اس کی ذات میں تحلیل میری ذات ہوئی ہر ایک لفظ ستارے میں ہو گیا تبدیل تمام رات مری آسماں سے بات ہوئی سجا دئے تھے منڈیروں پہ بیقرار چراغ درون رات مجھے اور ایک رات ہوئی ہری رتوں میں ہمیں شاخ شاخ دیکھنا تم وہ پھول پھول کھلا میں بھی پات پات ...

    مزید پڑھیے

    دستک ہوئی تو سر پہ دوپٹا سنبھل گیا

    دستک ہوئی تو سر پہ دوپٹا سنبھل گیا چھوٹا سا اک چراغ مرے دل میں جل گیا جاتے ہوئے رکا ہی نہیں ایک پل بھی وہ سارے ستارے پاؤں کے نیچے کچل گیا تانبے کی ٹکڑیاں سی بکھرتی چلی گئیں پھر دیکھتے ہی دیکھتے سورج پگھل گیا بارش کی بوند بوند کو ترسا ہوا تھا شہر آنچل ہوا کا تھام کے بادل نکل ...

    مزید پڑھیے

    حرف کے پھول چن کے لاتے تھے

    حرف کے پھول چن کے لاتے تھے روز تازہ غزل سناتے تھے درد کی صورتوں میں اک گھر تھا اس کی ویرانیاں سجاتے تھے زندگی ڈایری میں لکھتے تھے اور پھر ڈایری جلاتے تھے اک شجر تھا جو اس کے جیسا تھا اس کو ہم حال دل سناتے تھے اب اندھیرے میں بیٹھے رہتے ہیں پہلے اکثر دیے جلاتے تھے اس کے لہجے کی ...

    مزید پڑھیے

    دن ہوا اور روشنی ہی نہیں

    دن ہوا اور روشنی ہی نہیں چاند نکلا تو چاندنی ہی نہیں بیچ جنگل میں راہ بھولی تھی لوٹ کر گھر کبھی گئی ہی نہیں حال اور ماضی ایک جیسے ہیں وقت سے میری دوستی ہی نہیں میری آنکھوں کو لے اڑا بادل ایسی بارش ہوئی تھمی ہی نہیں بے سہارا تھکن ہے اور میں ہوں منزل عشق تک چلی ہی نہیں کچھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3